ترجمان دفتر خارجہ کے جاری اعلامیہ کے مطابق نائب وزیراعطم اسحاق ڈار نے15 ویں اسلامی سربراہی کانفرنس سے خطاب میں کے آغاز پر گیمبیا کے صدر اڈاما بارو، برادر عوام اور جمہوریہ گیمبیا کی حکومت کی جانب سے گرمجوشی سے استقبال اور بہترین مہمان نوازی کے لیے تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ انہوں 15 ویں اسلامی سربراہی کانفرنس کی صدارت سنبھالنے پر اڈاما بارو کو دلی مبارکباد بھی دی ۔
انہوں نے حرمین شریفین کے متولی شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہد اور سعودی عرب کے وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی اتحاد اور فلاح و بہبود کے لیے قابل قدر خدمات پر تعریف کی۔ اسحاق ڈار نے سربراہی اجلاس کی شاندار تیاریوں پر او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین برہیم طحہٰ اور ان کی ٹیم سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی کا یہ سربراہی اجلاس ایک نازک موڑ پر منعقد ہو رہا ہے کہ دنیا کے عوام بالخصوص امت مسلمہ کو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن کے لیے او آئی سی کو متحد اور مربوط جواب دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سربراہی اجلاس غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے جاری وحشیانہ فوجی حملوں کے سیاہ سائے میں منعقد ہو رہا ہے،35 ہزار سے زائد فلسطینی شہری، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، مارے جا چکے ہیں، ہزاروں زخمی اور اسرائیل کی اندھا دھند بمباری سے 20 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور جان بوجھ کر انسانی امداد ان تک پہنچانے سے انکار کیا جا رہا ہے۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اسرائیلی مظالم کو نسل کشی قرار دیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال نومبر میں ریاض میں ہونے والی مشترکہ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس نے دور رس فیصلے کیے تھے اور اس سربراہی اجلاس میں ہمیں فلسطین کی آزادی کے لیے اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے متحرک ہونا چاہیے تاکہ فوری اور غیر مشروط جنگ بندی،محصور لوگوں کے لیے بلا روک ٹوک انسانی امداد کو یقینی بنایا جائے،تنازعات کے پھیلاؤ کو روکا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے مکمل رکن کے طور پر فلسطین کی شمولیت کی حمایت جاری رکھیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ دو ریاستی حل کے حصول کے لیے امن عمل کو دوبارہ شروع کرنا چاہئے، 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر فلسطین کی ایک قابل عمل، محفوظ، متصل اور خودمختار ریاست کا قیام، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ہمیں اسرائیل کو جوابدہ بنانے کے اقدامات اور فلسطینی عوام کے تحفظ کے لیے ایک طریقہ کار پر بھی غور کرنا چاہیے ۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے لیے جموں و کشمیر کے تنازع کا حل بھی ضروری ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی توثیق کرتی ہیں ، ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام استصواب رائے کے ذریعے اس کے عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ 5 اگست 2019 کے بعد سے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہیں جو چوتھے جنیوا کنونشن اور بھارت کے اپنے وعدوں اور ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم کشمیریوں کے حق خودارادیت کی غیر متزلزل حمایت اور 5 اگست 2019 کے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو مسترد کرنے پر او آئی سی کے تمام رکن ممالک کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ کشمیر کاز کو فروغ دینے کے لیے ہمیں جموں و کشمیر پر او آئی سی ایکشن پلان پر عمل درآمدکرنا ہوگ۔بھارت سے انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں کو روکنے اور حریت رہنماؤں کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی غیر قانونی آبادیاتی اور دیگر یکطرفہ تبدیلیوں کو معکوس کرنا ہوگا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم جاری لوک سبھا انتخابات کے دوران ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کی طرف سے پاکستان مخالف بیانات اور اسلامو فوبک بیانیہ میں اضافے کی شدید مذمت کرتے ہیں ، ان کی بیان بازی سے مسلمانوں کو پسماندگی اور علاقائی استحکام کو خطرہ ہے، ہندوتوا کے نظریے کا پرتشدد نفاذ بین الاقوامی جانچ پڑتال کی ضمانت دیتا ہے، اقوام متحدہ اور او آئی سی کو صورتحال پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔