خالد کھوکھرکا کہنا ہے 10مئی سے احتجاجی مظاہرے شروع کیے جائیں گے،زراعت کا علامتی نماز جنازہ ادا کریں گے،ہمارے پاس 44لاکھ ٹن گندم موجود ہے،ایشو یہ ہے کہ تمام فیصلے بدنیتی پر کئے گئے،مافیا نے گندم اسمگل کرکے پیسہ کمایا۔
کم قیمت ملنے پر کاشتکار کا400ارب روپے کا نقصان ہوا،گندم فروخت نہ کرنے پر حکومت کو ڈیڑھ سو ارب روپے کا نقصان ہوا،مافیا پہلے اسمگلنگ کرتے ہیں پھر امپورٹ کرتے ہیں۔
گندم کے کاشتکاروں کے پاس فیصلے نہیں ہوں گے تو اگلی فصلوں پر انویسٹمنٹ کیسے کریں گے،ہم نے ہر چیز بلیک میں خریدی،اوپر جو بیٹھے ہیں وہ صحیح فیصلے نہیں کرتے۔
صدر کسان اتحاد نے مزید کہا کہ کسان نے یوریاپر 150ارب روپے سے زائدادا کیا ہے،آج بھی یوریا بلیک میں فروخت ہورہار ہے،گندم کا بحران پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے،گندم درآمد کرنا سب سے بڑا اسکینڈل ہے۔
گندم درآمد کرنے کا فیصلہ صرف مال بنانے کیلئے کیاگیا،گندم امپورٹ کرنےوالے کرداروں کو کڑی سے کڑی سزادی جائے،گندم امپورٹ کرنے والوں نے اپنی بوٹی کیلئے پورا اونٹ ذبح کر دیا۔
کرپشن کی خاطر6کروڑ کاشتکاروں کا نقصان کیا گیا،معلوم تھا کہ دسمبر میں گندم کی بمپر فصل آرہی ہے،پنجاب کے کسان سو نہیں پا رہے،پوری رات رو روکر گزار رہے۔
دوسری جانب مرکزی چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین باٹھ نے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے نام اہم خط لکھا ہے ۔
انہوں نے خط میں لکھا کسانوں کی گندم کی فصل کو آئے ہوئے 2 سے ڈھائی ماہ ہو چکے ہیں،پاکستان بھر میں کسانوں نے اپنی گندم نکال لی ہے،کسانوں نے اس سال پاکستان میں وافر مقدار میں گندم کی پیداوار کی ہے جو کہ کسانوں کا جرم بن گیا ہے۔
خالد حسین باٹھ کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے باہر سے امپورٹ ہونے والی گندم کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے،پنجاب حکومت نے 3900 روپے فی من ریٹ مقرر کیا جس پر ابھی تک ایک دانہ نہیں خریدا گیا۔
پرامن احتجاج کرنے پر کسانوں پر تشدد ہوا گرفتاریاں کی گئی،سوشل میڈیا پر کسانوں کو انتشار کی طرف دھکیلنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے کسانوں کے اوپر تشدد قابل قبول نہیں،کسانوں کی گندم اس وقت 2600 سے لے کر 3 ہزار روپے تک خریدی جا رہی ہے جو کہ مڈل مین خرید رہا ہے۔
اگر یہی صورتحال رہی تو عام شہری کو اٹا مہنگا ملے گا اور کسانوں کا اربوں روپے کا نقصان ہوگا،ہمارا مطالبہ ہے ہماری گندم حکومتی ریٹ پر خریدی جائے تاکہ ہم اگلی فصل کاشت کر سکیں۔