0

تم اجنبی

ہمارے دوست اور بھائی کامران شاہد کی فلم ”ہوئے تم اجنبی” نے آج کل بڑی دھوم مچا ہے۔ بظاہر تو یہ رومانٹک کامیڈی فلم ہے لیکن 1971ء کے سانحے کے گرد گھومتی ہے جب پاکستان دولخت ہوا ۔کامران شاہد دنیا ٹی وی پر رات آٹھ بجے آپ کو بھی دکھاتے ہیں لیکن انہوں نے اس فلم کی کہانی لکھنے اور پھر اسے ڈائریکٹ کرنے کے لیے کافی وقت دیا۔ فلم میں ان کے والد اور ماضی کے سپر اسٹار شاہد نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔۔

پیٹ کی موت اور باپ کی اداکاری نے فلم کو انوکھا رنگ دیا ۔پروڈکشن کے نکتہ نظر سے یہ فلم بہت اچھی ہے لیکن کچھ واقعات کی عکاسی کرتے ہوئے احتیاط نہیں کی گئی۔ اس فلم کا براہ راست ہماری تاریخ کے ایک بڑے نازک موڑ سے تعلق ہے۔

1971ء کے سانحہ مشرقی پاکستان کو نصف سنجیدگی سے گزرنا پڑتا ہے لیکن فلم دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہم ابھی تک اپنی مثال کے طور پر غلط بیان کر رہے ہیں۔ لی جو بظہر بھارت کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے آپلبے لمبے لکھنے والے تھے لیکن انہیں کبھی بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا خیال کیوں نہیں آیا ؟سانحہ مشرقی پاکستان کی تاریخ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں چھپی ہوئی لیکن اس کمیشن کی رپورٹ اس رپورٹ میں جنرل رانی کا کردار ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔

فلم میں احمد، اسلم، شفقت چیمہ، ثمینہ پیرزادہ، سہیل عمر، عباسی، شمعون، عدنان حیدر، علی خان اور میکال ذوالفقار اور دیگر فنکاروں نے بہت اچھی اداکاری کی ہے لیکن اگر اس فلم کو تاریخی حق سے کچھ قریب رکھا جاتا ہے۔ یہ فلم پاکستان اور بنگلہ دیش کو دیکھنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

پیارے بھائی کامران شاہد سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر فلم بنائیں تو بتانے سے پہلے مولوی تمیز الدین کیس کا مطالعہ کریں ۔انہیں پتہ چلا کہ جب پہلی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی بنائی گئی تو بنگالی مولوی تمیز الدین کو درخواست اعلیٰ عدالتوں تک امداد دینے کے لیے کیاپاپڑے لیکن ایک لاہور کے لیے مثالیہ محمد منیر نے کہا کہ ضرورت مند قائد قائد ؒ کے خواب کو ریزہ ریزہ کر کے فلم ” شیخ ہوئے تمنبی ” میں محمود اسلم نے مجیب الرحمان کا ادا کیا کیا ہے؟

یہ شیخ مجیب الرحمان تھے جنہوں نے 1965ء کے صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظم ؒ کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کاساتھ اور ان کے پولنگ ایجنٹ تھے۔شیخ مجیب الرحمان نے محترمہ فاطمہ جناح کو جتوا دیا۔ کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں قائد اعظم ؒکی بہن جنرل ایوب خان کی دھاندلی کے سامنے ہارکامران شاہد کو وقت نکلا تو پانچ منیر کی ”فرام جناح ٹو ضیاء” ضرور پڑھیں جس میں موصوف نے اعتراف کیا ہے۔ جب 1962ء میں وہ حکمران وزیر قانون تو انہوں نے جنرل ایوب خان پر بنگالی سیاست دانوں سے پاکستان کی جان چھوڑنے کی استدعا کی لیکن بنگالیوں نے کہا کہ ہم پاکستان نہیں چھوڑیں گے۔

اب تو ہمارے بزرگ احمد سلیم کی کتاب ”میری دھرتی،میرے لوگ” بھی شائع ہوئی ہے۔ احمد سلیم ایک صحافی اور مورخ نہیں بلکہ پنجابی زبان کے شاعر بھی ہیں۔1971ء میں انہوں نے بنگالیوں کے خلاف ملٹری کی بات نہیں کی اور اس کے خلاف پنجابی نظم لکھی۔وہ اپنی کتاب میں مارچ 1971ء میں میری نظم لکھتے ہیں۔ سامنے آئی تو مجھ پر اعتراض کیا گیا۔انہیں گرفتار کیا جا رہا تھا تو ان کی سال کی بھانجی نے اپنی ماں سے پوچھا کہ پولیس نے مجھے کیوں پکڑ لیا؟ماں نے بیٹی کو جواب دیا کہ ماموں نے جنرل یحیٰ خان کے خلاف کہا ایک نظم لکھی ہے ۔احمد سلیم کی بھانجی نے اپنی ماں سے کہا کہ ”تو یحیٰ خان بھی ماموں کے خلاف نظم لکھتا ہے، انہیں کیوں پکڑا؟”ماں نے بیٹی کو جواب دیا کہ اگر یحیٰ خان نے کوئی نظم لکھی تو اپنے لوگوں کی نسل کشی کیوں نہیں کرتا؟احمد سلیم کی کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کراچی آئے تو جی ایم سید نے انہیں کہا کہ آغا غلام نبی، ایوب کھوڑو اور پیر علی محمد راشدی کو اپنی پارٹی میں شامل کروشیخ مجیب الرحمان نے جواب میں کہا کہ یہ سب بڑے فیوڈل ہیں عوامی لیگ مڈل کلاس کی جماعت مجھے سندھ کے مشہور شاعر شیخ ایاز اپنی پارٹی میں شامل کرنا۔

کچھ اور بعد شیخ مجیب الرحمان نے اپنے دوست قاضی فیض محمد کوشیخ ایاز کے پاس بھیجا پھر سندھ کے عظیم شاعر عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کرنے والی بات یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمان پاکستان کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ تو پھر وہ سندھ کے شاعر شیخ ایاز اور پنجاب کے شاعر حبیب جالب کے دیوانے کیوں تھے؟

احمد سلیم کی کتاب بلوچستان کے اختیاراتی سوالوں کو بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔جس قسم کے دھوکے بنگالیوں سے کہا گیا ہے کہ دھوکے بلوچستان سے بولے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے نواب نوروز خان زرکزئی نے کہا۔ (جزائر انڈیمان) میں سزا کاٹی ۔پاکستان بن گیا تو خان ​​آف قلات کی گرفتاری کے بعد مسلح مزاحمت شروع ہو گئی۔85سالہ نواب نوروز خان بھی بھاگوں پر گئے

انہیں واپس لوٹنے کے لیے بریگیڈیئر ریاض حسین نے ایک جرگہ اور جرگے نے بلوچ سردار کو قرآن کا واسطہ دیا کہ گاؤوں سے اتریں اور حکومت سے بھی بات کرو۔بوڑھا بلوچ قرآن کے احترام میں لیکن اسے گرفتار کر لیا گیا۔ فوجی عدالت نے ان کے بٹوں اور ساتھیوں کو پھانسی دیدی اور 25 دسمبر 1965ء کو وہ حیدر آباد جیل میں نوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔وہ اجنبی نہیں تھے کہ ایک مسلمان کیا تھا۔ ناانصافی نہ بنگالیوں کو بھی ناانصافی نے اجنبی بنایا اور آج بلوچوں کےساتھ بھی ناانصافی کی جا رہی ہے۔ بلوچوں کےساتھ وہ نہ کریں جو بنگالیوں کے ساتھ کیا کریں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کیرتی پالیسی کی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply