0

آپ یا سول ماریا لا؟

اچھی کتاب ہوتی ہے جو اندھیروں میں امید کی شمع روشن کر دے اور اپنے قاری کے عزم و ولولے کو تازہ کر دے۔ پاکستان کے معروف قانون دان جناب ایم ظفر صاحب کی نئی کتاب ”پارلیمنٹ بنام” بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے جس میں آج پاکستان کے تمام آئینی اور سیاسی مسائل کا حل موجود ہے کو بیدار بھی کرپاتا ہے جن کا ضمیر اقتدار کے نشے کے موقع پر۔ بظاہر یہ کتاب قومی و پارلیمانی اراکین اور اراکین کے اراکین کے لیے ایک گائیڈ ہے۔ کتاب کے آغاز میں ایس ایم ظفر صاحب نے مثال کے طور پر حلف کی بات کرتے ہوئے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کو کہا۔

جب قائد اعظم ؒ نے کہا کہ بین الاقوامی جنرل گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے مطابق حلف لینے کے لیے آپ نے حلف لینے سے کہا۔ ان کے حلف کے الفاظ پر ان کا کہنا تھا کہ ”میں خود بخود جنرل تاج برطانیہ کا وفادار رہوں گا” قائداعظم ؒ کے اسرار پر حلف کے الفاظ بدل گئے کہ ”پاکستان میں آئینی طور پر نافذ العمل ہو گا۔ وفادار رہوں گا”

آگے چل کر پاکستان کی قانون ساز اسمبلی بانی پاکستان میں گیارہ اگست 1947ء کی مشہور تقریر کا ذکر ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ”پاکستان میں آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مسجد میں جائیں یا کسی عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ قائد اعظم ؒکی اس بات کا بلیک آئوٹ کرنے کے لیے اس وقت کی اسبلشمنٹ نے ایک پریس ریلیز تیار کیا۔ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے اس پریس ریلیز کو مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ فریقاعظم قائدؒ تک پہنچ جائیں گے اور یہ پریس ریلیز واپس لے جائیں گے۔ اس پریس ریلیز کی تفصیل بیان کرنے کے لیے ایس ایم ظفر نے صحافی ضمیر نیازی صاحب کی کتاب کو زنجیروں میں دبا کر حوالہ دیا۔ اس کتاب میں ایک واقعہ درج ہے جو آج پاکستان کے لیے اہم ہے۔ ضمیر نیا صاحب نے لکھا ہے کہ 1949ء میں وزیر اعلیٰ ایم اے کھوڑو کو قرار دے دیا گیا تو انہوں نے اپنی پوری کوشش کے خلاف ایک درخواست دائر کی۔ عدالت میں ٹرائل شروع ہوا تو ایک نوجوان بی بی کریٹ آغا شاہی کو بلایا۔

آغا شاہی نے عدالت کو بتایا کہ ایک پاس پاس وہ جنرل قائداعظمؒ کے ایک آرڈینس کے ڈرافٹ پر دستخط کرنے کے لیے ہیں۔ اس آرڈیننس کے تحت پولیس کو کسی مقدمے یا ٹرائل کے بغیر گرفتاری کا اختیار جانا۔ قائداعظم ؒ نے فائل پڑھی تو غصے میں آ گئے اور کہا کہ میں تمام زندگی کے سیاہ قوانین کے خلاف ہوں میں آج تم اس پر دستخط کرنا چاہتا ہوں، میں ایسا نہیں کر سکتا۔ ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب میں رولٹ ایکٹ کے خلاف متحدہ ہندوستان کے قانون ساز اسمبلی سے قائداعظم ؒ کے استعفے کی وجہ سے ہی سیاہ قانون کو قرار دیا جس کے تحت ٹرائل کے بغیر گرفتاری کا اختیار دیا گیا۔ جس قانون کو قائداعظمؒ نے مسترد کر دیا اس قانون کو پاکستان کے پہلے فوجی ایم ڈی جنرل ایوب خان نے پی پی کے نام سے نافذ کر دیا اور ستم ظریفی دیکھیں کہ کسی جمہوری حکومت نے اس قانون کو ختم نہیں کیا۔

آج 2023ء میں اس سیاہ قانون کے تحت سیاسی اور صحافیوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور انکی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی جا رہی ہیں۔ ”پارلی بنام تنقید” میں ریاست کے تین ستونوں مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات کے ساتھ چوتھے ستون میڈیا کی ذمہ داریوں کو بھی بیان کیا گیا جو کہ پریس گیلری میں موجود ہے۔ پریس کو چوتھا ستون سوالس کارلائی نے قرار دیا۔ ایس ایم ظفر نے ”مملکت کا چوتھا ستون؟” کے عنوان سے کتاب کے 18ویں باب میں اپنے قائداعظمؒ کا ایک حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ ”ریاست صحافیوں کی حفاظت کریں جو اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کریں۔ ہیں اور حالات میں عوام اور حکومت دونوں قابل قدر خدمت کر رہے ہیں” ایس ایم ظفر صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب میڈیا اور سوشل میڈیا کی تفریق ختم ہوئی تو میڈیا کے چوتھے ستون کے طور پر مشکل مقام پر ہے۔ میڈیا میں عام ہو گیا ہے فیک نیوز کو وارننگ کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔

اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سیاسی جماعت کیا ہوتی ہے؟ سیاسی جمہوری اصولوں پر منظم ہونا لیکن افسوس ہے کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ایس ایم ظفر صاحب نے سیاسی کی کئی غلطیوں کی بات کی ہے جن کی وجہ سے غیر سیاسی قوتوں نے آپس میں تعاون کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت کو پارٹی پارٹی کرانا چاہیے اور اپنے مالیاتی مالیاتی ماخذ کا حساب کتاب فراہم کرنا۔ ایس ایم ظفر صاحب فیلڈ مارا ایوب خان کے صدارتی نظام حکومت میں چار سال تک وزیر قانون رہے لیکن وہ پاکستان میں ریاستی نظام کے سخت مخالف ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی کتاب میں کہا کہ 1973ء کے آئین کے تحت حکومتی نظام پر پاکستان میں قومی متفقہ رائے ہے کہ یہ صرف ان ممالک میں چل سکتا ہے جہاں نظام چھوٹے اور بہت زیادہ۔ امریکہ میں نظام وفاق کا نظام چل سکتا ہے جہاں کی پچاس اکائیاں ہیں، چار اکائیوں والے پاکستان میں صدارتی نہیں چل سکتے۔

شاہ صاحب نے مرد کو یہ بھی کہا کہ بلیم گیم اور گا گلوچ میں فرق۔ آپ اپنے الفاظ میں اور قراردادوں کو ”غدار” ”چور” اور ”ڈاکو” نہ کہیں کیونکہ یہ غیر مناسب الفاظ ہیں اور ان کا استعمال غیر موجودی رویوں کو جنم دیتا ہے۔ ایس ایم ظفر صاحب نے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پر بھی تنقید کی ہے لیکن ان کے خیال میں جج کے فیصلوں سے یہ تاثر ختم نہیں ہونا چاہیے کہ سیاسی جمہوری جمہوریہ میں کلچر کو فروغ دیا جائے اور تمام فرق سے مقابلہ کیا جائے۔ میں سیاسی محاذ کے سربراہوں کو ڈکٹیٹر خود کا حل نہیں ہے۔

آپ کو جواب دینے والوں کا احساس دلاتے ہوئے ایس ایم ظفر نے وارننگ دی کہ ایک جمہوریہ کو آمرانہ ریاست نہ سہی جہاں سب کو ایک دوسرے پر غلبہ کی کوشش کریں گے۔ ایس ایم ظفر صاحب کی کتاب پڑھ کر سوچ رہا ہوں کہ آج پاکستان کو 1973ء کے آئین کے تحت چلایا جا رہا ہے یا ایم پی اور کے ساتھ چلایا جا رہا ہے؟ جس سیاہ قانون پر پاکستان نے دستخط کرنے سے انکار کیا وہ آج ایک جمہوری حکومت کی سب سے بڑی طاقت بن گیا؟ سوال کرنے والوں کو سوچنے سے روکنے کے لیے ایم ظفر صاحب نے کردار ادا کیا۔ انہوں نے سینٹ میں اپنی آخری باتوں میں کہا تھا کہ میڈیا کو ”جاگتے رہو” کا فریضہ ادا کرنا ہم نے جاگتے رہو کا پیغام آپ تک پہنچایا۔ جاگئے قائداعظمؒ کا پاکستان اگر ایم پی پی اور چلا گیا تو پھر یہ جمہوریہ ایک سول ماریا لاڈلے چلا گیا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کیرتی پالیسی کی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply