اسی طرح ماضی کے ان برسوں میں حکومتی ریاستی اداروں نے جب چاہا کہ دوسری طرف گردی کا مرکز قائم کیا جائے تو بہت سارے لوگ جب تک گرد کی تعریف پر اترتے تھے، اس کے لیے آزادی کے ساتھ گھومنے پھرنے لگے۔ وہ ریاست یا حکومت کے لاڈلے۔ عمران خان وہ سیاستدان ہیں جو سب سے زیادہ اپنے سیاسی مخالفین پر دہشت گردی اور غداری کے فتوے جاری کرتے ہیں اور ان کی حکومت کو سب سے زیادہ سیاسی جماعتوں کی مدد سے گرفتار کرتے ہیں۔
اسی طرح ریاستی اداروں پر تنقید کرنے کے خلاف تشدد کے خلاف ایک کے تحت مقدمات قائم ہوئے لیکن مکاتیب عمل کے قانون کے تحت 9مئی کو عمران خان کی جماعت کے لوگ نہ صرف حملہ آور ہوئے بلکہ شہدا کی یادگاری ایما پر ہیں۔ عالم کے جہاز کو جلا ڈالا۔ اب پی ٹی آئی آئی کے مخالف اس کو مخالف جماعت کا طعنہ دے رہے ہیں تو دوسری طرف عمران خان اور ان کےساتھ بار بار یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ہم کیسے آگے بڑھ رہے ہیں؟
میں فتوے کے جائزے کے قابل ہوں اور نہ اس کا قائل، اس کے لیے کبھی کسی غدار کا ٹائٹل دیا، مخالف گرد کا، منافق کا اور نہ غیرمحب وطن کا۔ جب عمران خان کی حکومت پی ٹی آئی کے وزراء اور بالخصوص وزراء تحفظ موومنٹ کے مفادات کو تسلیم کرتے ہیں تو ملک دشمنی کا اظہار کرتے تھے پھر مسنگ پرسنز کے لیے آواز بلند کرنے والے کو تشدد سے جوڑتے تھے تو صرف ان کے رویے نہیں تھے۔ میڈیا میں خوشی کی مذمت کی نہیں بلکہ خلوتوں میں بھی آپ کو سمجھا جاتا ہے کہ آپ لوگ ان کی بات کو غلط کہہ رہے ہیں لیکن کسی جنرل یا کرنل کی خوشی کے لیے انہیں غدار اور ملک دشمن یا بیرونی ایجنٹ القابات سے یاد نہیں کرتے۔ اب ایک کی طرف سے پی ٹی آئی آر پارٹ ہو رہی ہے کہ اس کے خلاف ریاستی دہشت گردی اور دوسری حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں ہو رہی بلکہ بعد میں گرد جماعت بن گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ گرد کون ہے؟ عام الفاظ میں پسندیدگی کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صرف اپنی بات کو درست اور باقی ہر کسی کی بات کو غلط کہیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ اپنی بات کو کسی غلطی سے تسلیم نہ کریں۔ یعنی صرف اپنی پارٹی، اپنے لیڈر اور اپنے نظریے کو درست اور مکمل طور پر غلط سمجھنا اور اس میں کسی ایک کو باقی نہ رکھنا پسند کرنا۔ اب اس بات کو دیکھا جائے تو عمران خان نے پی ٹی آئی کو ایک پسند پارٹی بنا دیا۔
وہ صرف اپنے آپ کو فرشتہ اور باقی سب لیڈروں کو چور، ڈاکو اور منافق کہتے ہیں۔ اسی طرح ان کے پیروکار بھی اپنے لیڈر کے کسی غلطی کے ایک حصے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور کسی مخالف لیڈر کے لیے کسی کو تسلیم نہیں کرتے۔ عمران خان مخالف سیاسی جماعتیں اور سیاسی لیڈران کو سیاسی لیڈر تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
حکومت میں بھی وہ یہ کہہ رہا ہے کہ ان میں چوروں کے ساتھ نہیں چلوں گا اور نہ کبھی آپ کے ساتھ حکومت نکلنے کے بعد بھی کہہ رہے ہیں کہ مخالف سیاسی لیڈر چور ہیں اور چوروں سے میری بات نہیں ہو سکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کو دھیرے عمران خان نے اپنی پسند پارٹی بنا دیا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا میں پسندیدگی کی تعریف کی گئی ہے کہ:
ان خیالات پر یقین اور حمایت جو زیادہ تر لوگ درست یا معقول سمجھتے ہیں۔
اسی طرح سے گردی کی تعریف انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا میں ہے کہ:
سیاسی مقصد حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر کسی علاقے میں لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے پرتشدد کارروائیوں کا استعمال۔
یعنی سیاسی نظریات اور مزاحمتی قوت کو طاقت، طاقت (خواہ وہ عوامی آواز کی) کے بعد یا پھر متشدانہ اقدام سے اپنے نام کی دہشت گردی کو حاصل کرنے کے لیے۔ سادہ الفاظ میں ہم صرف نظر کر سکتے ہیں کہ صرف اپنی بات، اپنے نظریے، اپنے پارٹی اور اپنے مسلک کو درست سمجھنا اور باقی سب کو غلط سمجھنا پسند کرنا اور پھر بھی کوئی طاقت (عوامی ہو یا آواز کی) نظر کو مسلط کرانا مخالف گردی۔ بظاہر تو ٹی پی کا مقصد بھی انتہائی نیک یعنی اسلامی نظام کا مطالبہ۔
بلوچستان کے لوگوں کے شکوے بھی جائز ہیں اور بظاہر بلوچ عسکریت پسند اگر آپ کے حق مانگتے ہیں تو اس کی بات بھی درست ہے لیکن ہماری ریاست انہیں طاقت کے گرد گھومتی ہے کہ وہ طاقت کے بل پر اسلام نافذ کرنا یا پھر بلوچستان۔ حقوق حاصل کرنا اب جہاں تک ٹی ٹی آئی کا تعلق ہے تو یہ کوئی بات ہے کہ عمران خان صرف آپ کو حق بجانب ہیں اور باقی سیاسی جماعتیں تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے 2014 میں بھی دھرنوں (جس کے اسکرپٹ میں سو سے زیادہ بندوں کو مروانا شامل کیا گیا تھا) کے سیاسی مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ پھر لاک ڈائون کے پروگرام اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کی کوشش۔
اقتدار میں آنے کے بعد آپ کو جیلوں میں کر کے اور قوانین کا خوف دلانے کے لیے انہوں نے اپنے نقادوں کو دبانے کی کوشش کی۔ اقتدار سے ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی عدالتی طریقے سے عوامی طاقت سے حکومت اور ریاستی اداروں کو خوفزدہ کر کے سیاسی مقاصد حاصل کریں۔
انہوں نے پولیس کو بھی بتادیں اور جج کو بھی۔ اس کے ساتھ جو لا کر عدالت کو بھی خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جبکہ 9مئی کو انہوں نے پیروکاروں کے ملک بھر میں فوجی تنصیبات اور شہدا کے یادگاروں کو نشانہ بنانے کے لیے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ گویاوپیگنڈا کر کے صرف آپ کو حق حاصل ہے اور باقی سب کو غلط کہنا ہے یا پھر عوامی طاقت کے میڈیا کو خوفزدہ کرنے پر حملہ کرنے والی بات منانا ان کا بنیادی فلسفہ ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ آئی پی ٹی آئی گرد تنظیم سیاسی ہے یا؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کیرتی پالیسی کی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔