عاصم صرف قصوروار ہے کہ آپ کی تعریف کی گئی ہے کہ آپ کے جنرل وقت کے آخری وقت تھے، اَن گنت قوتیں اُکی آپ کو رکوانے میں جُتّہ تک۔ واقعہ کا ایک افسر، ملحوظ کے لیے رکھا گیا کہ 27 نومبر کو باہر نکل جائیں۔ 27 نومبر ریٹائرمنٹ کے پیچھے بھی ایک اور تفصیلی کارنامہ کہتا ہے کہ یہاں اُسکی غیر ضروری ہے۔ چشم تصور میں جنرل باجوہ نے عمران خان کی رُخصتی کے ساتھ ہی نئی اتحادی حکومت کو بھی گھر بھجوانے کا پروگرام بنایا تھا۔ زبان عام کہ، 29 مئی 2022 کو شہباز شریف کی الوداعی زدہ زبان تیار تھی۔ سب کچھ نواز صاحب کی زیر نگرانی لندن میں فیصلہ ہوا۔ اللّٰہٰ کی تدبیر جنرل باجوہ کی تدبیر پر غالب۔
مہینوں نے پہلے اپنے جیوٹی وی پروگرام میں کہا کہ ”جنرل باجوہ کیمطابق خان کی حکومت سے علیحدگی اختیار،تحریک عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کرنے اور اتحادی حکومت وجود میں آئے گی۔”۔ کا اثر بالخیر نہ ہو، اُس پر یہ تاثر قائم رہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیٹ ورک۔ پرویز الٰہی اور کئی دیگر سیاستدانوں نے عدالت کو عمران خان کا گرویدہ رکھا۔ دوسری طرف تنظیم کے اندر بھی پہلی بار عدالت کھیل۔ جنرل فیض حمید عمران تنظیم کی مخصوص سپورٹ خان کو جاری ہے۔
جنرل باجوہ کا فلسفہ، خان متذبذب اور کر سکتے ہیں تاکہ عمران خان کا راستہ استعمال کر کے اتحادی حکومت کو بھی جا سکے، میں توسیع کے لیے مدت ملازمت میں سہولت فراہم کر سکتا ہوں۔ یعنی نگران حکومت مل جائے تو توسیع کی مدت یا ملازمتی مرضی کا انتخاب کرنا یا کم ازکم جنرل عاصمیر کا روکا جانا۔ ایک جگہ بھی بتادیں کہ جنرل عاصم منیر کا کوئی قصور ہو؟ اُس کے خلاف گھناؤنی مہم زور و شور سے جاری ہے۔
آخر میں وطن ٹوٹنے والی قیامت کے وجود میں آتی ہے۔ عمران خان نے اپنے ہونے کا عندیہ دیا تھا، وہ انتخاب کو۔ جنرل باجوہ نے عمران خان کو کمتر سمجھا۔ اُس کی دو صلاحیتیں، ابلاغ عامہ کا استعمال غیر معمولی اور لڑنا مرنا، جارحانہ اندازِ سیاست میں اُس کی سیاست کو چار چاند لگانے کے لیے کافی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ان مدوں میں عمران خان کا مقابلہ کرتی رہی، عمران خان کے قوت دو رُسوا پلک جھپکتے عمران خان وطنی سیاسی منظر نامہ پر چھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی بے توقیری اور اُسکو ُرسوا رکھنے میں زمین آسمان کے قلابے ملاڈال۔ پوری دنیا میں پاکستانی فوج کے وقار کو دھچکا لگ رہا ہے۔صداوس، جنرل باجوہ کو توسیع دینے والوں نے ایسا اندھا رکھا، نہ ترس آیا کہ احساس ادارہ گھائل ہو رہا ہے۔
اِدھر ستمگرستمبر کا مہینہ شروع ہوا اُدھر جنرل عاصم منیر تحریک انصاف سوشل میڈیا کی انتہائی غلیظ مہم پر زور دینے پر میرا یہ کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بڑی پوزیشن حاصل کی ہے۔ اگر اللّٰہ نے اس کو کچھ سمجھایا تو جنرل باجوہ پلان ناکام رہے ہیں۔ جیو پر لاگز میں تیقن کرتا ہے کہتا رہا،”لے آرمی چیف جنرل عاصم من ہی ہی۔”
انہی دن عمران نے جنرل عاصم کی خانی رکوانے کے لیے کوشش کی. لانگ مارچ کا اعلان لوگوں سے شامل ہونے کے لیے قرآن کے حلف کے لیے لوگوں کے ساتھ واپسی پر حملہ آور ہونا چاہیے۔ آخرکار موقع آیا کہ ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ مل کر نوٹیفیکیشن سے کھیلنے کا اعلان کر دیا۔ دوسری طرف تنظیم کے اندر ہی سے جنرل عاصم منیر کا آزادی کے لیے اداروں کے ڈسپلن کی اڑائی۔ لندن میں اکلوتا تک رسائی کا فیصلہ کرپاتا تھا، اس پر راستے کے لیے”فوجدن پہنچا۔ جنرل باجوہ نے اکتوبر میں 12جرنی کو 3اسٹار جنرل بنایاتا ادارے میں اثرو رسوخ کہ پیدا ہوا بنا۔ سیاسی اور حکومتی سطح پر اکیلا نواز شریف بمقابلہ ”کل مسلمین”، نواز شریف ڈٹ گیا کہ یہ اللّٰہ کی غیب کی مدد ہی تھی۔ جنرل عاصم منیر دنیا کی چوتھی بڑی فوج کے سپہ سالار بن گئے نا مساعد اور مشکل حالات کی موجودگی میں ایک سال والے ایک سال پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے ہیں تو ادارے کے ڈسپلن کو بحال کرنا اثرو رسوخ سے نکلنا اور سیاسی طور پر ناکام ہونا تو مشکل ترین کام ہے۔ تاثر عام کیا گیا کہ تلاش صاحب کی تنظیم پر گرفت ڈھالی۔
9 مئی کا اندوہناک واقعہ بظاہر ایک شر ،خیر دے ۔ ریاست پر آپ کو پلک جھپکتے جنرل عاصم منیر کی کایا پلٹ کہتے ہیں۔ اللّٰہ کی غیبی مدد آپ کو دوبارہ حاصل ہو گئی، ایک موقع پر مضبوط بنانا قوم کی تلاش کے پیچھے پیچھے ہو عمران خان کا تخریبی بیانیہ دُبک۔
8 مئی تک عمران خان کا عفریت ناقابل تسخیر بن چُکا تھا، سارا کریڈٹ جنرل باجوہ کو دینا 9\10 مئی کو جب ریاست پر حملہ ہوا تو اس پر حملہ ہوا حیرت کو حیرت 15دن نہیں ہوئے، جنرل عاصم منیر کے عزمِ صمیم اور بَر وقت نے دل گرفتہ اور شکستہ دل قوم کو احتجاج کیا۔ جواب میں عمران خان کی پارٹی میں بوس، تتر بتر ہو چکا ہے۔ سیاست غیر یقینی صورتحال سے دوچار، اپنے انجام کو
25 مئی کو ہم نے ”یوم تکریم شہدا”منایا، قوم کے اندر نئے عزم اور جن کو دیکھنے کو ملا۔ جنرل عاصم منیر نئے عزم کی تاریخ کے مضبوط ترین سپہ سالار طور پر اُبھارے۔ یوں گماں کہ جنرل عاصم منیر نے 11 مئی کو پیارے سناٹا۔ جنرل عاصم منیر! آپ کو نئے سرے سے تلاش کرنا مبارک، پاکستان بچانا مبارک۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کیرتی پالیسی کی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔