
ہڈیوں، بافتوں، ریشوں اور مسلز کے انتظام کے نظام کے سلسلے میں جوڑ کافی خوش۔
حالتوں میں کئی مسائل کا نتیجہ ہو سکتا ہے جیسے چوٹ لگنا، جو مرض یا بیماریاں کی بافتوں کا کوئی مسئلہ۔
مردوں کی پسند میں چہل قدمی نہیں بلکہ سیدھا ہونا بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
لیکن دامن کو مضبوط بنانے سے ان مسائل سے بچنا آسان ہو جاتا ہے اور اگر آرام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کی شدت میں کمی آتی ہے۔
اس سے ایک عام عادت یا ورزش کرنے والوں کے لیے جذبات مند ثابت ہوتے ہیں اور وہ سیڑھیاں اٹھانا۔
سیڑھیاں بولنے کے فوائد
آرام دہ اور پرسکون اردگرد کو مضبوط بنانے سے جو اردگرد کے مسائل کم ہوتے ہیں۔
یہ مسلز رانوں تکے ہیں اور سیڑھیاں ان سے اچھی ورزش ہوتی ہے۔
اسی طرح سیڑھیوں سے طاقت کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے جس سے ان دنوں کو بلاواسطہ احساس بھی ہوتا ہے۔
حقیقت مُحمد 5 منٹ تک سیریوں پر چڑھنے سے 45 کیلوریز کو جلانا ممکن ہے اور اگر ہر ہفتہ 5 بار ایسا کیا جائے تو یہ 225 کیلوریز بن جاتی ہے۔
ہر سال 50 ہفتہ اس طرح کرنے سے 11 ہزار 250 کیلوریز کو جلانے میں مدد ملتی ہے۔
ایک پونڈ وزن میں 3500 کیلوریز ہوتی ہیں اور ہفتے میں 5 دن میں صرف 5 منٹ تک سیڑھیوں سے ایک سال میں 3 پونڈ زیادہ وزن کم کرنا ممکن ہوتا ہے۔
آپ کو شاید علم نہ ہو لیکن ہر 10 پونڈ کاڈھان پر 30 سے 60 پونڈ کا اضافی وزن بڑھتا ہے۔
تو سیڑھیاں اٹھانے کیلو جلانے اور طاقت کے وزن میں کمی سے مدد ملتی ہے جس سے جو بنیادی پر کم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سے ڈاکٹر ضرور کریں۔
اچھی طرح سے آپ کو سیڑھیاں لگانا ایک محفوظ اور آسان ترین ورزش ہے مگر اس کی وجہ سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنے ڈاکٹر سے ضرور رجوع کریں۔
ان سے پوچھیں کہ کس حد تک اس ورزش کو بہتر کرنا ہے اور اس سے زیادہ بہتر ہونے پر اسے نقصان پہنچانے کی ضرورت ہے۔
اگر آپ کا دل یا نظام کسی مرض سے متاثر ہوتا ہے تو یہ ورزش کرنا بہت مشکل ثابت ہوتا ہے۔
آرام کا خیال رکھنا
جب کبھی آپ کو انجری کا سامنا کرنا پڑا تو جو امراض کے شکار ہوں گے تو میں یہ بات پوچھتا ہوں۔
صحت مند درد ہونے، پکڑنے کے لیے بہت اہم ہے۔
ان کے جذبات کے مسائل حل کرنے کے لیے اقدامات کرنا
اس کے لیے سیڑھیاں بولنے والے آپس میں ٹانگوں کو مضبوط بنانے والی ورزشیں کرتے ہیں، جبکہ آپ کو آرام سے گریز کرنا چاہیے جس سے آپ کو نقصان پہنچے، خاص طور پر عمر میں زیادہ احتیاط ضروری ہوتی ہے۔
جسمانی وزن کو قابو میں رکھ کر بھی آرام کرو۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع کی گئی تفصیلات پر، قارین اسباق سے اپنے معالج سے بھی ضروری ہے۔