وہ اپنے سب سے بااعتماد دوست عمر فاروق (گولڈی) کے ساتھ اپنے ‘روحانی استاد’ میاں بشیر کے پاس ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھا، ”ہماری پارٹی کب جیتے گی” بقول عمران، ”انہوں نے بند داریاں اور پانچ منٹ کے بعد میری طرف دیکھا اور جب تم ذمہ دار ہو جاؤ۔”
آج اس واقعہ کو 20 سال سے زیادہ وقت گزرتا ہے اور آج میاں بشیر جیتے ہیں تو شاید خان صاحب ان سے ضرور نکلیں گے۔ اب یہ محسوس نہیں کر سکتا کہ اس کا جواب دیا جا سکتا ہے یا بس اتنا مختلف ہو سکتا ہوں کہ آج وہ مشکل حالات سے گزر رہے ہیں جہاں ان کے قریبی ساتھی کے ساتھ چھوڑ کر الگ الگ نظر آتے ہیں۔ اپنی سیاست اور سیاسی حکمت عملی اس وقت جو اُن کے ساتھ ہونا ضروری ہے ان کا نظریاتی ساتھ باقی سب ضروری مینڈک۔ ایک نظر انہیں اپنے سیاسی حریفوں کے قافلے پر بھی ڈالنی چاہیے کیوں کہ اس وقت ان کو بھی اسی طرح چھوڑنا چاہیے۔
ان کی سیاسی حریف بے نظیر بھٹو نے بہت وقت دیکھا، ایسا بھی کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو گورنر سے پھانسی کی سزا دی گئی تھی اور پارٹی کی قیادت ‘لیکن’ باہر نکلی تھی، خودکارکن، احتجاج کرتے ہیں۔ عدالتوں سے سزا پاتے۔
بیٹی سیاسی طور پر ناتجربہ کار تھی اور ماں جذباتی لیکن سمجھ رہی تھی کہ کون لیڈر کر رہا ہے۔ یہ ایک طویل داستان ہے کہ کس طرح پلٹا کھایا لیکن بے نظیر کو کبھی کھل کر سیاست کرنے کا موقع نہ مل سکا اور آخر میں انہیں بھی راہ راست سے ہٹا دیا۔ دونوں، بیٹیوں کے لیے مشکل ماں باپ کی پھانسی کے بعد جب وہ اس کے ایک سال کے بعد بڑے سیاسی اتحاد ایم آر ڈی کی تشکیل ہوئی جس میں اس کے رہنما بھی شامل تھے۔ درپردہ پھانسی کے حامی بھی۔ لیکن انہیں 70 کلفٹن دل کے ساتھ سخت جدوجہد کی دعوت دی اور پھر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاسی اتحاد بنا، تری نظریاتی قوم کے ملک اور 1983 میں ایک منفرد تحریک چلی جس میں 800 کے قریب لوگ مارے گئے۔
خان صاحب کو ایک نظر اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر بھی ڈالنی۔ اگر وہ پنجاب کے ان کے بقول سب سے بڑے ‘ڈاکو’ کو پوری پارٹی کی صدارت دے سکتے ہیں تو میاں صاحب سے اختلاف کے لیے بات چیت تو ہو سکتی تھی وہ کچھ سابق جرنیلوں کے لیے چند سیاسی کمزوریوں سے کرتے ہیں۔ ایک بار وہ ‘میثاق پارلیمان’ کی بات ضرور پڑھیں، اس پر عمل نہیں ہوا یا اس کو ابھی تک دیکھیں وہ ان سوالات کا ہے جو میاں صاحب اور بے نظیر صاحب نے برسوں کے بعد یہ اعتراف کیا کہ وہ کچھ ‘غیر سیاسی’ لوگوں کے ساتھ ایک دوسرے کے جواب میں استعمال کر سکتے ہیں۔
میاں صاحب بھی 1980تک سیاست سے نابلد تھے اتفاق سے فونڈری اور جیم خانہ میں کرکٹ کھیلنے کے علاوہ دوسرے مشاغل نہیں تھے۔ انہوں نے جنرل جیلانی کے علاوہ جنرل حمید گل کی ‘سیاسی نرسری’ سے تربیت حاصل کی۔ میاں صاحب نے آگے بڑھ کر حلقہ بندیوں کو بھی کیا، کیوں کہ ناکام ہو گئے۔ سب سے زیادہ انتخابی آپ نے ہی کہا اور تقریباً سب سے تنازعہ ہوا تو ان کی غلطی تھی تو حلقوں نے زور زبردستی اور بات کہی۔
2011سے 2018تک عمران خان تمام تر مقتدر حلقوں کی حمایت کے علاوہ پاکستان کے ایک طبقہ کو سیاست میں کامیاب ہوئے جو سیاست میں کامیاب ہوئے تھے اور وہ پاکستان کے نوجوان اور خاندان تھے۔ کرکٹ کے حوالے سے تو میاں صاحب کے ہیرو بھی تھے اور بے نظیر کے بھی۔ لیکن وہ ‘امید’ کے سامنے کوئی خاص امید نظر نہیں آرہا ہے۔ 2008ءتک لوگ صرف ‘عمران’ کو ایک ہیرو کے طور پر دیکھنے پر تھے لیکن بے نظیر بھٹو کی علامت کے بعد وہ مضبوط ‘تیسرا آپ’ بن کر ابھرے۔
اگر وہ 2014ء میں پی پی سے بات کرتے تو میاں صاحب کی حکومت مشکل میں آتی ہے۔ لیکن خان صاحب کو یہ یقین دلایا جا رہا تھا کہ آپ اقتدار کے قریب ہیں تو انہوں نے دونوں محاذوں کے خلاف ‘سیاسی بنیاد رکھی۔ 2016میں نواز شریف کو پانامہ میں سیاسی طور پر قرار دیا گیا اور 2017ء میں تو خان صاحب کے لیے اقتدار کے میدان کھولے گئے اور جنرل باجوہ نے عملی شکل اختیار کر لی۔ اس میں کوئی بھی طاقت نہیں ہے کہ ان کا بھی بڑا ووٹ بن سکتا ہے لیکن وہ شاید اقتدار میں نہ ہوں اگر کراچی اور بلوچستان میں ‘غیر سیاسی’ کھیل نہیں کھیلا جاتا۔ ان کی ٹوکری میں جو ‘فروٹ’ ڈالے گئے اور جو لوگ پارٹی میں شامل ہوئے آخر میں انہوں نے ہی کھیل پہلے اپریل 2022 میں کھیلا اور باقیوں نے اس کے بعد۔
خان صاحب نے ماضی کے حکمرانوں کی طرح ضرورت سے زیادہ ‘غیر سیاسی’ لوگوں کے کاموں کے نتائج کے طور پر وہ عوام سے چلے گئے اور ان کی پالیسی انہیں غیر مقبول بناتی چلی گئی۔ انہیں عدم اعتماد کی ایک نئی زندگی ملی لیکن جلد بازی کے فیصلوں کے لیے قومی اسمبلی سے استعفیٰ، پنجاب کے پی اسمبلی کی حکمت عملی کے بعد، جماعت کی ناقص عملی، نظروں سے گرفتاری تک اور پھر 9مئی مثال کے طور پر سیاسی خودکشی نے انہیں آج اس کا جواب دے دیا۔ مقام پر انعام دیا گیا جہاں وہ ایک آرام سے جیتی بازی ہارتے نظر آتے ہیں۔ مقبولیت موجود ہے قبولیت نظر نہیں آرہی۔ بہتر حکمت عملی انہیں سیاست میں واپس لاتی ہے کیونکہ جو غلطیاں ہیں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کر رہی ہیں ‘غیر سیاسی’ قوتوں کو اپنی اسپیس دے کر۔
بچو ں محمد سعید صاحب کی ایک کتاب ‘پاکستان’ جو یکم اگست 1947 سے 31 دسمبر 1947 تک اخباری تراشوں پر مشتمل ہے، میں ایک لیٹر ایڈیٹر جو پاکستان ٹائمز میں چھپا منجانب عام آدمی نظر آتا تھا جو سیاست دانوں سے ایک اپیل تھی۔ کہ”جناب والا! میں سیاست دانوں سے ادب سے گزارش کرتا ہوں کہ اگر اس ملک میں آپ کا احترام ختم کر دیا گیا تو اس کا نقصان نہیں لیکن عوام کا بڑا نقصان ہے۔ خدارا! پاکستان کی خاطر تاریخ پڑھ کر اندازہ لگانا”
یاد رکھیں کہ جب نواز شریف نہ ختم ہوا نواز ہی عمران خان کو ختم کر دیا، سیاسی میدان میں ہی شکست اصل شکست ہوتی ہے آپ کو سمجھنا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کیرتی پالیسی کی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔