0

عمران خان سیاست بن کِھلے مرجھانے کو!

دو رائے نہیں کہ موجودہ حکومتی اتحاد سیاسی اور بحرانی صورتحال کی گرفت میں ہے۔

پاولچہ ماہ سے عمران خان کمال مہارت سے گِری ساکھ بحال کر رہے ہیں۔ حالانکہ اپنی سیاست میں نئی ​​روح پھونک چُکے، تو عمران خان کی سیاست آج بے دم اور بے دست و پا۔

عمران خان کے ہتھے سے نئی نئی مقبول سیاست دو ستونوں پر استوار تھی، ”امریکہ نے میری حکومت کی سازش کی، اسٹیبلشمنٹ اندر غدار ٹولے نے امریکی سازش کو جامہ پہنایا”۔

اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ مخالف بیانیہ کو پاکستان میں رفعتیں نہ ملیں، یہ کیونکر ممکن ہے۔ پہلے میں ہی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ کو غیر معمولی سمجھنا یقینی طور پر ایسا بیانیہ انتخاب سیاست سے دور ہے۔ اس بیان کی کامیابی نے اسٹیبلشمنٹ کا ستیاناس کرنا تھا یا بصورت ناکامی خان کا ملیا میٹ ہونا۔

بیانیہ کے سائے میں سوشل میڈیا کے تین نعروں کو مبالغہ آمیز پروپیگنڈا کے بڑے مقلدین کا اور بچھونا بنا۔ تین نعرے: فرضی سوال پر فرضی جواب، بالکل نہیں۔

دوسرا نعرہ ”ہم کوئی غلام ہیں”، یعنی عسکری قیادت امریکی غلام، نتیجتا ریاستً امریکی غلام۔ تیسرا نعرہ ”حقیقی آزادی کا سفر” خواب بنا کر بیچ ڈالا۔ ”نیا پاکستان پروڈکشن” کی تعمیر کی شاندار ناکامی کے بعد اپنے چاہنے والے بیان میں دھول جھونک کر بیان کو تبدیل کرنا بنتا ہے۔

”غلامی سے آزادی کا سفر” کے نئے سبز باغ دکھانے کے علاوہ چارہ نہیں۔ آج تینوں نعرے زمیں بوس، تلاشِ گمشدہ کی چھوڑیں بُھلوں میں گُم ہونے والے۔ ایک طرف اندھے مقلدین کو حقیقی آزادی کے حصول کا چوند چکمہ دیا تو دوسری طرف امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ سے PLEA BARGAIN یعنی پس پردہ معافی تلافی یعنی NRO کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔

مراسلہ لہرانے کے دو اندر ماہ لُو (سازش کا مرکزی کردار) پی ٹی آئی کو امریکہ نے اپروچ کیا، وضاحتیں بتائیں۔ تب سے امریکی خوشنودی کے لیے آپ کو وقفہ کر رکھا ہے۔ انہی دِنوں امریکی لابنگ فرم کی 30 ہزار ماہانہ خدمات پر حاصل کریں۔

اگلے مرحلے میں سی آئی اے کا اثاثہ رابن رافیل بنی گالہ آذر، چند دن ملاقات چھپاتے رہے، بالآخر بتانا پڑا۔ سی آئی اے سکہ بند ایجنٹ زلمے خلیل زادکا کوڈنا بھی بنتا۔ عمران خان کے حق میں اور وطنی اندرونی معاملات میں مداخلت کی بکواس کر ڈالی۔ تب سے چل رہا ہے، پارٹی کے رکن پارلیمنٹ بریڈ شرمین اور دیگر رکن پارلیمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کریں آگے پہنچیں۔ پی ٹی آئی کا امریکی خانہ خانہ اسلام آباد میں سفیر تک رسائی اور تابڑ توڑ میٹنگ کرنا معمول بن چُکا۔

یہ سامنے، پس پردہ کیا پاپڑ بیلے، معلوم ہے۔ تمام تگ و دو اور جستجو کے بعد عمران خان کے آخر میں اس کے بدلے میں اس منصوبے کو امریکہ نے نہیں کہا، جنرل باجوہ نے پروان چڑھائی۔ امریکہ کیلئے عام معافی اور جنرل باجوہ کیلئے عدالت بن مارا کی ڈیمانڈتی۔

اسٹیبلشمنٹ سے اس موضوع پر صَرف نظر کرنا بھی بنتا ہے۔ انواع و عمران کی وارداتوں اور بہت سے خان نے خوب سیاست پر اُٹھایا اور ملکی معیشت مضبوط کر لی۔ اپنے ہی چاہنے والوں کو دھوکا دینا میرے لیے استعمال کرنا۔ کس طرح کہ اقتدار ہاتھ سے دیکھا تو اس ملک عزیز پر اقتصادی تباہی کی بارودی سُرنگ بچھانے سے بچاؤ

آئی ایم ایف سے معاہدہ کرپاکستان کو دیوالیہ بنانے کی مذموم کوشش ڈھکا چھپا نہیں کہ شوکت ترین وزیر اعظم پنجاب اور خیبرپختونخوا کو اُکسایا کہ ریاست آپ کو سازش پر کام کرتا ہے کہ پاکستان تباہ ہو جائے۔

شوکت کی ریاست مخالف گفتگو اور آئی ایم ایف سے باقاعدہ رنگ کو سبوتاژ کرنے کی گھناؤنی سازش کا مقابلہ کرنا

پی ٹی آئی سے جوش و خروش امریکہ اور آئی ایم ایف سے دوبارہ رابطہ کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے اپنی وفاداری کا یقین دلا رہا ہے۔

آج امریکی مراسلہ، امریکی سازش جیسے لغو نعروں سے عمران خان کا پیچھا چھڑوا ہے۔ نئی نئی مقبولیت کو دبوچے امریکہ کی مدد لینے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔

دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کو بھی راضی کرنے کے لیے بہتر تعلقات کی تگ و دو میں رات ایک کر رکھی ہے۔ بے شک نہیں کہ امریکی مدد کے بدلے قوم، ملک، دین بیچنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کو بھی اس کے عناصر اور کرداروں کی تلاش جووطن عزیز کی پس منظر اور کام کی فروخت نہیں کی گئی ہے۔

اعظم نہیں رہنی، عمران والے دن میں امریکہ کو بھارت کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے ہم وقت میں دستیاب ہیں۔ وطن عزیز میں امریکہ کے ساتھ عدم استحکام اور سالمیت کو متزلزل رکھنے کے لیے کچھ اور۔ نواز شریف دس والیم جو سی آئی اے کی مدد سے تیار ہو کر وطن عزیز کے حالات کو یہاں تک پہنچانے کا اشارہ شروع کرتی ہے۔

موصوف کنفیوجین کے بعد نئے آرمی ترقی کی آمد کے بعد کہ آگے بڑھئوں یا پکڑو۔ تب سے” پارلیمنٹ اور آئینی” کی پاسداری کے نام پر مِنتِ ترلے بیک وقت جاری ہے۔

قومی اسمبلی کی رکنیت میں ہوں، 22ئی کا لانگ مارچ، قاتلانہ حملہ، نومبر 5مئی سے ممکن حد تک، 26 لانگ مارچ، دو اسمبلیوں کی تحلیل یا تحریک بھرو تحریک، ایک موقع ایسا نہیں ہے کہ عوام کو ریاستی قوتوں پر پابندی لگائی گئی۔

نہیں حکومت اسبلشمنٹ پر ثابت قدمی ناکام رہی۔ آپ عدلیہ پر بذریعہ ”جٹھہ انصاف کا حصول” کچھ نہ کچھ کام دِکھاتا ہے۔ لے دے کے عدلیہ میں سہارے کو لے لیا، لگتا ہے آج عدلیہ بھی ساتھ چھوڑنے کو۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہو سکتا ہے، غیر معمولی مقبولیت کی اپنی ناقص کو عملی شکل دینے کی بدولت موصوف کی سیاست بے رنگ، بے بُو، بے ذائقہ اور بے اثر بن چک۔

قطعاً حیرت نہیں کہ عمران خان کی سیاسی پسپائی کا بہیمانہ سفر شروع ہو چکا ہے، مکمل گھیرے میں آ چُکا۔ پوری زندگی مہرہ بن کر بولا، غلط بیانی سے مستقبل سنوار۔ آج اللہ کی آواز لاٹھی کی زد میں، حیف! عمران خان سیاست بن کِھلے مرجھانے کو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کیرتی پالیسی کی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply