0

عدلیہ کا حالیہ بحران، ذمہ دار کون؟

عدلیہ کا جو بحران دیگر بحرانوں کی سنگینی اور سختی میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔ عدلیہ میں تقسیم کا جو تاثر بن رہا ہے، وہ بھی کسی ملک کے مفہوم میں۔

سیاست دانوں کو اس کا بحران کا ذمہ دار قرار دینا بھی کسی تاریخی حق سے میل نہیں ہے۔ عدلیہ کی طرف سے ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی کی سزا دی گئی اور اس پر عمل درآمد ہوا۔ دو منتخب وزرائے اعظم کو قرار دے دیا گیا، عدالتوں کے لیے یہ بھی قبول کرنا۔ آئین کے بدنام زمانہ آرٹیکل 58 (2 ) بی کے تحت دو منتخب حکومتوں کو برطرف کرنے کے صدارتی حکم نے عدالت کی توثیق کی۔ سیاست دانوں نے یہ بھی قبول کیا۔ عدالتوں نے مولوی تمیز الدین کیس لے کر نصرت کی کیس تک نظریہ ضرورت کے تحت استعمال کیا تو ان فیصلوں پر عمل درآمد۔

یہ اور بات کہ ملک میں اور سیاست نہ پنپ سکی۔ عدالتوں نے ایک فوجی آمر کو آئین میں مانی ترامیم کا اختیار دیا تو عدالتوں کے بھی مانے گئے۔ پھر یہ کیسے کہا جا رہا ہے کہ عدلیہ کے حالیہ بحران کے ذمہ دار سیاست دان ہیں؟ عدلیہ کے حالیہ بحران کو اگر عدلیہ کے ماضی کے کردار کا منطقی نتیجہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا تاہم کچھ تازہ اسباب بھی۔

یہ بحران اس وقت جب خیبرپختونخوا کے سامنے پاکستان جناب صدر عمر عطا بندیال نے پنجاب اور صوبائی اسمبلی کے وقت پیدا ہونے والے انتخابات کے لیے خود نوٹس لیا اور اس کیس کی سماعت کے لیے 9 رکنی بینچ تشکیل دیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بینچ میں شامل دووں کو ممتاز الحق اور جج مظاہر نقوی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا یہ دونوں معزز جج بینچ سے ہو گئے، بینچ سات رکنی۔ کیس کے منٰی کے دوران دو اور معزز جج صاحبان مولانا اطہر اللہ اور نعیمی آفریدی آفریدی نے یہ تسلیم کر کے خود کو بینچ سے کر لیا ہے کہ بینک اس کے اختیارات پر سوموٹو نہیں لے سکتے۔

اس کے مقابلہ کے میدان نے پانچ رکنی بینچ کے ساتھ کیس کی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بینچ نے یکم مارچ کو آگے بڑھی (تین۔ دو) کی بنیاد پر اختیارات کو حکم دیا کہ وہ انتخابات کا جاری رہے۔ اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے پنجاب میں 30اپریل کو انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ دینا ہی ہے۔

پانچ رکن بینچ کے دو ججز کمال مندوخیل اور منصور منصور شاہ نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے مقابلے کے لیے ”من شو” جیسے لفظ استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی تشہیر کے سوموٹو استعمال کو سیاسی نظام میں مداخلت سے کہا۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے اس بین الاقوامی کو مسترد کر دیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ یہ پانچ رکن نہیں بلکہ 7 رکن ہے، جس میں چار ججز نے سوموٹو نوٹس کو مسترد کر دیا۔

آپ نے فیصلہ کیا کہ چار تین کا۔ اس طرح عدلیہ میں تقسیم خود ججوں کے اختلاف سے الیکشن کمیشن کے مقابلے دو تین کے مقابلے پر پنجاب میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے موقف اختیار کرنا چاہتا تھا لیکن حکومت نے موقف اختیار کیا کہ انتخابات کے لیے درکار اور فراہم کرنے کا بوجوہ ممکن نہیں ہے، جس کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبر میں انتخابات کرانے سے کہا ہے۔ کر لی۔ اس پر پاکستان تحریک انصاف نے پھر درخواست سے رجوع کیا۔

پانچ رکنی بینچ تشکیل دے. اس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ کے جج فائز عیسیٰ نے حافظ قرآن امیدواروں کو 20 نمبر دینے کا فیصلہ سنا دیا، جس پر انہوں نے کہا کہ جب تک نمبر کے سوموٹو کیس سے متعلق واضح نہیں ہے۔ ہو جائے، تب تمام سومو کیسز پر روک تک دی گئی۔ اس اگلے میں بینچ کے دوسرے امیدوار امین الدین، جو پانچ رکنی بینچ کا حصہ بھی تھے، کیس کیلی سماعت کے دوران پانچ رکنی بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی، دوسرے دن اجازت شروع ہوئی تو باقی چار رکنی بینچ بھی ٹوٹ گئے۔ جیسا کہ ملک جمال مندوخیل کے معیار کے بینچ اور سوموٹو آپشن پر اختلاف کرتے ہوئے بینچ سے باہر نکلا ہے۔

تاہم آپ کو تین رکنی رکنی بینچ کے ساتھ جاری رکھنے کا فیصلہ ہے۔ اس بینچ کے متفقہ طور پر انتخابات کا انتخاب ملتوی کرنے کا فیصلہ کرنے کا فیصلہ قرار دے اور پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کا حکم دے دیا لیکن اس پر 7رکنی بینچ میں چار ججوں کا اختلاف اپنی جگہ ایک سوال نشان یہ ہے۔ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسی روز پرنٹ بین نے ایک اور چھ رکنی جس نے قاضی فائز عیسیٰ کا سوموٹو استعمال کرنے کو تیار کیا، ریگولیٹ کرنے سے متعلقہ حدود کو کنٹرول کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس طرح پنجاب کے پی انتخابات کے الوا پر سوموٹو کیس ہی عدلیہ کی بظاہر تقسیم کا سبب بنتا ہے۔ عدلیہ کو اپنے بحران کو ختم کرنا۔ اسی سوموٹو کیس میں پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے حل کے لیے بھی عدلیہ کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ جن کے حل کا کوئی آئینی جواز نہیں ہے۔ عدلیہ کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اگر یہ دو پارلیمانی انتخابات کے لیے پہلے تو آپ کے بعد میں آئینی پیچیدگی پیدا کرتا ہوں۔ ان دونوں معاملات پر معزز جج صاحبان کے سوالات۔ انہیں غیر فاصل نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ملک کے بڑے سیاسی بحران اور آئینی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔

عدالت کے اختیارات کے سوموٹو اور بینچ بنانے کا طریقہ کار سے متعلقہ عدالت پریکٹس اور پروسیجر بل کے خلاف اب پی ٹی آئی نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت سیاسی طور پر اس مطالبے کو ماننے سے انکار نہیں کیا جا رہا ہے کہ اس پر فل بینچ نہیں بنایا جائے گا۔ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بحران ہے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل کی آئینی شرط پہلے سے طے کی جاتی ہے تو بحران پیدا نہیں ہوتا۔ اب عدالت سیاسی جماعت سے ایک مقابلہ کر رہی ہے کہ انتخابات کے لیے بات کریں۔ اس نکتے کو بھی اسی وقت فیصلہ کر لیا گیا، جب معزز جج صاحبان نے یہ بات کہی تو بحران بھی پیدا نہیں ہوتا۔ ملک میں سیاسی بحران ختم ہو جائے اور اقتصادی بحران پر قابو پانے کے حالات پیدا ہوں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کیرتی پالیسی کی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply