0

تکی کارروائی کا ریکارڈ کل جمع کرنے کا حکم

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

اسلام آباد: درج کرنا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں اٹارنی جنرل کو کل تک تکی کارروائی کا ریکارڈ جمع کرنے کا حکم دے

چاندہر عمر عطابندیال کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ کیس کی نگاہ کی، منظر اعجاز ال، منظر منیب اختراحسن، دنیا مظاوی، دنیا محمد علی مظاہر، دنیا کے حسین ملک، حسن اظوی اور شاہدوحید بینچ کا حصہ۔

عدالت نے عدالت کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کی درخواست دائر کی، درخواست میں ڈرائیور حکومت کو عدالت نے تمام ججز پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔

عدالت نے جواب جمع کرایا تھا، عدالت کی طرف سے کارروائی اور قائمہ کمیٹیوں کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

آج عدالت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل منصورعثمان نے عدالت کی استدعا کردی۔

وکیل مسلم لیگ ن صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ ہم نے بھی درخواست کی تھی کہ عدالت کی استدعا کی ہے۔ تماشا اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ آپ کی درخواست ابھی تک نہیں پہنچی۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سیاسی نشانات اس کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے موجود ہیں۔

توقع ہے کل تک کارروائی کا ریکارڈ ملگا:اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ نے دستاویزات جمع کرادی ہیں؟ اساٹارنی جنرل نے کہا کہ توقع ہے کہ کل تک کارروائی کا ریکارڈ مل جائے، دفتر سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا جائے، عدالت قرار دے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے، عدلیہ کی آزادی کا بنیادی۔ جج، عدالتی اصلاحات کے قانون میں بینچ کی تشکیل اور اپیل عدالت کا فیصلہ کیا گیا، اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا، قانون میں جو معاملات طے پا گئے وہ انتظامی اختیارات کے لیے۔

فل کورٹ کے لیے دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ عدالت کے رولز فل کورٹ کو تشکیل دینے کے لیے عدالت پریکٹس رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی ممکن ہے، عدلیہ کی آزادی اور رولز سے متعلقہ دائرہ عدالت میں بھی۔ کو سننا چاہی، قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو سے راستہ نہیں نکل سکتا۔

کمال کا اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ سوال ہے کہ ایسا کیا قانون سازی کے استعمال کے لیے ہیں یا نہیں، ترمیم سوال نہیں کرتے۔ ممتاز مظاہرنقوی نے سوال کیا کہ ماضی میں جانچ عدالت پریکٹس اور پروسیجر ایکٹ کوئی قانون سازی ہوئی؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 1973 تک رولز بنانے کے لیے صدر کی اجازت

آرٹیکل 191 کے آپ کو ایک ہی طرح کا قانون سازی کس طرح ہے؟جسٹس مظاہر

مولانا مظا نقوی کا کہنا تھا کہ آئینہر کے آرٹیکل 191 کے برابر قانون سازی کس طرح دیکھتی ہے؟ خود محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ یہ انتخابی کمیشن اس کے لیے فل کورٹ سنتا ہے۔ ہم سب ملک کا کہنا تھا کہ ہم معمول کے مطابق پہلے کیس سنتے رہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا اس کے لیے کبھی بھی عدالت تشکیل دی جاتی ہے۔

کسی بھی ملک کا کہنا تھا کہ عدالت کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شخص سن سکتا ہے، کیا اس بینچ کو حکومت کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں کوئی سوال نہیں کرنا چاہتا؟ کیا حکومت عدالت کی باہر سے باہر آئے؟ ہر روز اہم ہوتا ہے، یہ کس طرح مقرر کیا گیا ہے کہ کونسا کیس فل کورٹ کو؟ کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر شروع شروع کرنا سنا تھا؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ چوہدری کیس جج نے کئی مقدمے فل کورٹ سنائے۔

آپ کا کہنا تھا کہ 1996 میں عدلیہ کی آزادی کے مقدمے سے جا رہے ہیں، بظاہریہ حکومت کا کیس نہیں لگتا کہ فل کورٹ کا نتیجہ ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ عوام کا اعتماد فل کورٹ پر ہے؟ عدالت درخواست کی درخواست پر اپنی کارروائی کیسے ریگولیٹ کرے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی کے تمام مقدمات کا فیصلہ سنانا نہیں ہے۔

آپ کا کہنا تھا کہ رولزبنکا اختیار فل کورٹ کو انتظامی امور میں، اگر کسی 3 رکنی بینچ کے سامنے رولز کی وضاحت کرنے کا فیصلہ آج ہے تو وہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیں؟ فل کورٹ تو اپنے رولز بناتا ہے۔

‘یہ سمجھ سے باہر ہے کہ فل بین کا فیصلہ اچھا ہے اور 3 رکنیچ کا برا کرنا’

آپ کو منطقی طور پر سمجھنا چاہیے کہ یہ فیصلہ اچھا ہے اور 3 رکنی بینچ کا کہنا ہے۔ کمال اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ آپ کا یہ کہنا ہے کہ رولز مدل عدالت نے اس کی وضاحت بھی کی ہے؟

تماشا منیب اختر کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کا جواب خود پیش کیا گیا ہے، عدالتی اصلاحات بل سی 4 کے مطابق کمیٹی نے 5 رکنی بینچ آئین کی تشریح کا تجربہ سنے گا، جب خود اپنے ایکٹ میں 5 رکن ہے۔ بینچ محبت رہی ہے تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ قانون کو غلط بنایا گیا ہے؟

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت نے تو اس قانون پر عمل درآمد سے روک رکھا ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ اگر امتناع نہیں ہوتا تو عدالت کی استدعا ہوتی ہے؟ یہ کہتی ہے کہ 5 رکنی بینچ ہو، اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ فل کورٹ ہو، لگتا ہے حکومت گنتی ہے کہ یہاں کتنے جج ہیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کی استدعا کیس کی سماعت کی، قانون میں کم سے کم 5 ججزکا لکھا ہے۔ جج منیب اختر کا کہنا تھا کہ ججز سے مطمئن ہے تو اُٹھارنی جنرل یا کیوں نہیں؟

عدالت ملک کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں بھی قوانین کے خلاف درخواستیں عدالت میں سنتی ہیں، ہائی کورٹس کے بھی قوانین کی درخواستیں سنتی ہیں، ہائی کورٹ میں بھی عدالت کی استدعا کی گئی؟

انتخابی مظا علی کا کہنا تھا کہ یہ اپنی پالیسی کا ابتدائی آغاز نہیں ہے، 2012 میں بھی اس کو کنٹرول کا سنا ہے، عدالت کی درخواست میں جواب دیا گیا ہے کہ بینچ حکم امتناع میں اپنا موقف دے گا۔

جج منیب اختر نے کہا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں فل کورٹ میں 60 اور سندھ ہائی کورٹ میں 40 ججز سماعت کریں گے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل ہائی کورٹ میں اس پر بات نہیں ہوتی۔

عدالت اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ عدالت نے فیصلہ سنا دیا تو ہائی کورٹ عدالت میں عدالتی فیصلے پر پابندی لگاتا ہوں۔ انتخابی منیب نے کہا ہے کہ اگر پارلیمان بھی اس کے بجٹ کا قانون دے تو کیا پوری ہائی کمیشن بنایا جائے گا؟ عورت ملک نے کہا کہ تمام ججز فیصلہ کریں گے کہ فل کیسگی؟ شاہد شاہد وحید نے سوال کیا کہ بینچ مارکیٹ کو فل کورٹ بنانے کا حکم دے سکتا ہے؟

کیا ایسی درخواست انتظامیہ کی سطح پر ہے؟

کسی بھی ملک کا کہنا تھا کہ فل تشکیل دینے کی درخواست دینے کے قابل ہونے پر بھی سوال ہے؟ کیا ایسی درخواست انتظامیہ کی سطح پر ہے؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ججز بازار سے فل کورٹ بنانے کی گزارش پورے۔

عدالت شاہد وحید کا کہنا تھا کہ میں وفاق کو عدالت کو حکم دینے کی درخواست کرتا ہوں، اس طرح استدعا پر عدالت کس قسم کا حکم دے سکتی ہے؟

آپ کا کہنا ہے کہ وفاق استدعا کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے پھانسی کے مقدمے میں بینچ پر اعتراض کیا تھا، ذوالفقار علی بھٹو کیس میں جج پر مقدمہ چلا اور 9 رکن پارلیمنٹ فل کورٹ سنانا۔

مولانا مظا نقوی نے کہا کہ آپ کو جس کا تناسب دے رہے ہیں اس میں بھی جمہوریت دی گئی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت بازار کے بازار انورالحق نے مخالفت کرنے سے انکار کیا تھا، نو رکنی فل کورٹ میں موجودہ بازار خود بھی شامل تھے، کسی جج یا مارکیٹ مارکیٹ پر درخواست دینے کی درخواست کی۔

کسی جج کا کہنا تھا کہ کسی جج پر بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ نہیں کر سکتا، مستقبل کے لیے طے کرنا ہے کہ بینچ کن حالات میں فل جج تشکیل دینے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ صرف آئینی ترمیم یا عدالت کی آزادی نہیں ہے، آئینی ترامیم کیس میں عدالت نے فوجی عدالتیں درست قرار دی ہیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ موجودہ آئینی ترامیم کا نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ مستقبل کے لیے ہوتا ہے، 20 سال بعد شاید زمینی حقائق اور آئین مختلف ہو، استدعا ہے کہ عدالت فل کورٹ۔

مسلم لیگ ن کے وکیل کے فل کورٹ کے لیے دلائل

مسلم لیگ ن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے فل کورٹ پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ امتناع کے پہلے بار قانون پر عمل درآمد روکا گیا، فل کورٹ کے لیے درخواستیں معمول میں دی جاتی ہیں، فائز عٰی کیس میں بھی فل بینچ۔ تشکیل دے دیا گیا۔

ممتاز اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ نظام فائز عیسٰی کیس کی صورت میں ماڈل کو بھجوا دیا گیا تھا، بازار خود مارکیٹ فائزعیس نہیں سن رہے تھے۔

بیرسٹرصلاح الدین کا کہنا تھا کہ سات رکنی بینچ نے فل کمیشن دینے کی ضرورت تھی، بعض اوقات بینچ خود بھی فائل کی تشکیل کے لیے فائل نمبر کوبھجوتا۔

انتخابی مقابلہ کا کہنا تھا کہ چوہدری چوہدری اور چوہدری فائز عیسیٰ کیسز مقدمے پر مقدمے کی سماعت پر تھے، جج الزامات پر توائل عدالت کا دعویٰ ہوتا ہے، سنجیدگی سے اس پر عدالت کا فیصلہ ہونا ہی عدالت کے خلاف تھا۔ قرار دیے، کسی اور مقدمے میں فل عدالت کی مثال کے طور پر تو

بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ آئی جی جیل خانہ جات کیس میں بھی فل کورٹ تشکیل دی گئی۔

کمال منیب کا کہنا تھا کہ چوہدری چوہدری کیس میں جج کو معزول اختیار کرنے کے لیے کہا گیا تھا، وہ ماسٹر آف روسٹرکا استعمال کرنے کے بعد اچھے نہیں تھے، معزولی قائم مقام مقام پر آپشن اس اختیار کو استعمال کر رہے تھے، مسلم لیگ ن کی سب سے بڑی بات ہے۔ پارٹی نے جو قانون بنایا ہے اس میں 5 رکنی بینچ کی بات کی گئی ہے، مسلم لیگ ن عدالت کی استدعا کیسے ٹھیک ہے؟

جج اعجازالاح کا کہنا تھا کہ آپ عدالت کو بتاتے ہیں کہ کون سے کیس کون سا بینچ سنے گا؟ پنڈورا باکس کھولیں گے تو ہرکیس میں فل کورٹ کی درخواستیں چلائیں

بیرسٹر صلاح کا کہنا تھا کہ سائلین فل عدالت کی درخواست کرتے ہیں اس پر عدالتی عدالت موجود ہے۔

ایک شخص ملک کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے اس طرح کی سوئپنگ اسٹیٹمنٹ نہ دیں، درخواست گزار کو معلوم ہوتا ہے کہ کون سا بینچ کیس سن رہا ہے اور وہ اس پر معترض کیوں، جیسے دلائل سے مسلم لیگ ن جانتی ہی۔ نہیں وہ فل کی استدعا کیوں کر رہی ہے۔

اتحاد محمد علی مظاہر کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے موجودہ بینچ پر مقابلہ کرنے کی درخواست کی ہے، کیا مسلم لیگ ن کو بینچ پر اعتماد نہیں ہے؟

آپشن کو ہی بینچز بنانے کا اختیار ہے: آپشن عطا بندیال

خاموش خاموشی کا کہنا تھا کہ اگر آپ نے نوٹس نہیں لیا تو اس کو خاموشی سے سن رہا ہوں، کیس کو خاموشی سے کہہ رہا ہوں کہ یہ موبائل فون کے اختیارات سے متعلق ہے، بازار کو ہی بینچز بنانے کا اختیار۔ فلڈیو موجودہ سے متعلق کوئی جوشل آرڈر دینا نہیں چاہتے ہیں جو مستقبل میں عدالتی نظیر کے طور پر استعمال کرتے ہیں، ابھی دلائل پر باقی ہیں اور دوسرے کو بھی سننا ہے۔

عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو عدالتی کارروائی کا ریکارڈ کل جمع کرنے کا نشانہ بنائے جانے کی سماعت کے حکم کے لیے ملتوی کر دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply