0

بلاول بیٹی کا بھر پور بھارت

اگر مشرفی قوتوں اور نزاکتوں سے نابلد لوگ شور مچائیں اور اس پر اعتراض کریں تو پھر بھی سمجھیں لیکن افسوس ہوتا ہے کہ سیاسی یا صحافتی مخاصمت کی بنیاد پر غیر قانونی پالیسیوں کے معاملات پر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب یہ المیہ اور قیامت کی نشانی نہیں ہے کہ جنرل محمد عمر (جو سانحہ مشرقی پاکستان کے مرکزی کردار) کے شوہر اسد عمر سیاست کے لیے بلاول بھٹو کو طعنہ دے رہے ہیں کہ وہ ہندوستان سے بے عزت واپس لوٹ رہے ہیں۔

آپ کو معلوم ہے کہ یہ ہندوستانی سرزمین پر ضرور تھی کہ آپگھائی کوآپریشن کونسل چین کی علاقائی تنظیم ہوئی ہے جس میں بانی پارلیمان چین، روس اور وسطیٰ کے بعض ممالک شامل تھے، اس اجلاس میں مختلف ممالک میں بائی روٹیشن میں شامل تھے۔ ہیں اور انڈیا کے بعد پاکستان کی باری اگر کسی جماعت کی حکومت ہوتی ہے تو عقل کا بھی یہی کہنا تھا کہ اس میں وزیر اعظم شریک ہیں اور میرا تو بھائی ہے کہ اس کے بعد جب سربراہی آگے اس انڈیا میں آپ کو بھی پاکستان کی طرف سے شریک ہونا چاہیے۔

اگر کوئی حکومتی کوئی ملک جاتا ہے تو وہ دوطرفہ ہوتا ہے یا پھر ملٹی نیشنل فورم کا اجلاس ہوتا ہے۔ مثلاً اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل کا اجلاس نیویارک میں ہوتا ہے۔ وہاں ایرانی صدر یا وزیر خارجہ ہر سال جاتا ہے۔ امریکی صدر ان کا استقبال کرتے ہیں اور نہ ان سے ملاقات ہوتی ہے تو اس سے ایران کی سبکی ہوتی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ ایران ہر سال اس فورم کو اپنی بات کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح اگر امریکی چاہیں تو ایران شمالی کوریا جیسے ممالک کو کبھی امریکہ نہیں ہو سکتا لیکن اقوام متحدہ ایک عالمی فورم کے لیے اس کو روک نہیں سکتا اور ان ممالک کے نمائندوں کو نیویارک میں پروٹوکول ملتے ہیں۔ ملک ممالک کو

اگر اسد عمر وغیرہ کے انداز میں بات کی تو پھر یہ بھارت شرم کا مقام تھا کہ اس نے اپنی سرزمین پر چائنا فورم کا اجلاس منعقد کیا جس نے فورم بنایا۔ ابھی ماضی قریب میں چین اور بھارت کی افواج کی جھڑپیں اور بھارت اس کے جواب میں چین کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ پھر تویہ نے کہا تھا کہ اس چین کے ساتھ مل کر فورم کے اجلاس کو اپنی سرمین پر میڈیا نے سبکی کا سامان کیا لیکن اس کے ملک کے حکمرانوں کا ملک نہ صرف شنائی کوآپرائزیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کا رکن اسمبلی ہے۔ کوشش کریں کہ اب میں اس کے کردار کے لیے بھی سرگرم عمل ہوں۔پھر تو انڈیا کے لیے بڑا شرمناک مقام تھا کہ چینی اور پاکستانی وزیرخارجہ کو اپنی سرزمین پر بلالیا لیکن حقیقتاً انڈین حکومت اپنے مخالفین کے لیے بھی بلاجواز ہے۔ کیونکہ چیف کاری اور مخاصمتیں ساتھ چلتی ہیں۔

ایس سی او وزرائے جنوبی کے اجلاس اور بلاول بھٹو کے انڈیا جانے پر زیادہ شور حکومت کے خلاف انڈین میڈیا اور اپنی مرضی سے مچایا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس چین کے وزیرخارجہ کو کیوں بلایا ہے کہ یہ حال ہی میں ہندوستانی فوجوں کی ٹھکائی ہے۔ اسی طرح بلاول بھٹو نے کچھ پہلے خود کو بھارت کا قصائی کہا۔ تب بھی اس خطاب پر انڈیا میں اب بہت شور مچایا گیا تھا اور یہ غلغلہ تھا کہ کسی فرد کو کیوں کہا کہ جس نے انڈین کو گجرات کا قصائی کہا۔ وہاں حکومت کا جواب تھا کہ پاکستان سے ان سے متعلق حکومت کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور کوئی دو طرفہ ملاقات نہیں کی۔

اسی طرح سے پہلے بلاول بلاول اور حنا ربانی کھر نے واضح کیا تھا کہ کوئی دوطرفہ سرگرمی نہیں۔ صرف ایس سی اور فورم پر اپنا موقف پیش کیا جائے گا اور یہ کہا جائے گا کہ عمران خان کے دور میں کشمیر کی آئینی طاقت کی طرف سے تبدیلی کا فیصلہ واپس لے کر دو انگلش منٹ کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ ۔ رات گئے

انڈین کے ساتھ کوئی دو طرفہ انگیج منٹ نہیں اجلاس کے دوران انڈیا کے وزیرخارجہ جان شنکر نے اپنی حکومت کا روایتی موقف پیش کیا اور بلاول نے پاکستان کا موقف پیش کیا۔ اگر آپ کا رویہ جارحانہ تھا تو بلاول کا بھی مدافعانہ نہیں تھا۔ بعدازاں جب شنکر نے پریس میں (جو ایس سی اور خاندان کا حصہ نہیں تھا) میں اگر پاکستان اور بلاول کے بارے میں اور جارحانہ لہجہ استعمال کیا تو اس نے اپنے کو چھوٹے اور بڑے کو بڑا کیا۔ جواب میں یہاں بلاول نے پریس کانفرنس کی اور ترکی کی باتوں کا بہ ترکی جواب دیا۔ اب اس میں پاکستان یا بلاول کی بے عزتی کا سوال اٹھتا ہے؟

احمق یہ سوال کرتے رہے ہیں کہ پاکستان میں جو پاکستان میں شامل ہونا تھا، ان میں سے بعض ممالک نے اسے شامل نہیں کیا تو اب اسی طرح پاکستان کو بھی شامل ہونا چاہیے تھا، سارک اور ایس سی او چار زمین میں۔ آسمان کا فرق سارک میں ہر حکومت اس ملک کے پاس ویٹو پاور اور اس کا استعمال کرتے وقت بھارت اور اشرف غنی نے اس کا جواب نہیں دیا۔ یہ بھی عملاً سارک پاکستان اور انڈیا کے تنازعے کا یرغمال خطہ ہے اور اس کی سرگرمیاں ان دو ممالک کے گرد گھومتی ہیں لیکن گھر کوآپریشن کے چارٹر پاس ملک کے کسی ویٹو کا حق ہے۔ اگر چین اور روس عدم شرکت بھی تب بھی ملاقات کریں

اس میں یہ دونوں ممالک اور وسط ایشیا کے ممالک۔ پاکستان توکیا تین چار ممالک بھی مل کر اسے رکوا نہیں سکتے تھے۔ اگر وزیر اعظم نہیں تو ملاقات بھی ہوتی تھی اور وہاں روسی اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ ملاقاتیں بھی نہیں ہوتی تھیں۔ ایک اور عام یہ کہ افغانستان اس کا رکن ہے لیکن طالبان کی وجہ سے اسے دعوت نہیں دی گئی۔ افغانستان کا سارا ملبہ اس وقت پاکستان کے سر۔ اس اخبار میں بھی ان کا کہنا ضروری تھا کہ اگر افغانستان زیربحث آتو اس سے پاکستان کا موقف پیش کیا جا سکتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کیرتی پالیسی کی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply