امریکہ چین کے مقابلے میں ایک متبادل طاقت کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔ علاقہ کا ”بڑا”بننے کے لیے صرف رقبہ کا زیادہ ہونا کافی نہیں بلکہ تلخ ماضی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے روشن مستقبل کی طرف سے نیا سفر شروع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ عالمی سطح پر سیاسی میدان چین میں ایک مثالی قائم ہے بھارت کو اس سے سبق سکھانا
چینی صدر نے دنیا کے لیے ایسی پالیسیاں ترتیب دی ہیں جن کا محور اور مرکز ترقی اور انسانی خدمت ہے۔ یہاں پر ساؤتھ امریکہ کے ممالک برازیل،ارجنٹائن،چلی اور وینزویلا کا تذکرہ کافی جو محل وقوع کے لئے امریکہ سے بغل میں واقع ہیں اور چین کے ساتھ ان ممالک کی تجارت کے حجم میں تین سال کے اندر تین سو ارب کا اضافہ ہوا ہے۔ ہو
ان ممالک میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں سے بے نیاز ہو کر چائنا ہونے والی حجسٹرکچر کی سیاسی تشکیل، ہسپتالوں اور بندرگاہوں کی تعمیر اور سماجی ترقی کے ساتھ تلاش کے نئے منصوبے شروع کرنے کے ساتھ وہاں ترقی کی نئی راہیں کھولیں۔ انہی ممالک نے امریکہ کو ہمیشہ بد امنی میں رکھ کر وہاں کے وسائل پر حملہ کیا ہے اور اس کے برعکس حکومت قائم کرتی ہے کہ اسلحہ کی تجارت کو آگے بڑھائے گا جس کا نتیجہ خاک اور خون کے سوا کچھ نہ نکلے گا۔ وینزویلا میں مستقبل میں توانائی کے حصول کے لیے ایک بڑے پیمانے پر ”لیتھیم” کے ذخائر سے رابطہ کریں
ان ذخائر کے ساتھ ملنے کے بعد مستقبل میں صرف یہ ملک نہیں بلکہ اس کی توانائی کی ضروریات کو بھی پوری طرح سے چلانا چاہتا ہوں۔ سعودی عرب اور ایران کے بعد خود کو ایک مستند عالمی کھلاڑی پر مانوایا۔چین کو سپر پاور کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارتی قیادت میں ایک شخص کا ہاتھ ہے جس کے دامن پر آج بھی گجرات کے بے عزتی کا خون ہے۔ ۔
بھارت کے تمام ہمسایہ ممالک اس سے تنگ آ گئے ہیں۔ اس علاقے میں امن کا توازن خراب ہو گیا ہے۔ میں غیر علانیہ کو اختیار کر رہا ہوں۔ وہاں پر جان محفوظ نہیں ہے۔
بھارت کی 30 برسوں سے ریاستوں میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے، یہ خواتین تلخ حق نہیں، بھارت کے خوشنما قوم کے پیچھے چھپ سکتی ہیں۔ کے مطابق عزت دینے کا ڈھانگہ نہیں،قریروں میں سچے سننے کی ہمت نہیں،اور ایک عالمی تنظیم کے وزرائے خارجہ کی سطح کی میزبانی کی وجہ سے ڈول ڈالکاش اس کا اجلاس منعقد کرنے والے اسی سطح پر ظرف کا بھی کہنا ہے۔ تو آج عالمی برادری میں بھارت کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی حکومت نے اجلاس کے دوران سرحد پار گردی کی بات پر زور دے کر کہا کہ بلاول بھٹو کو شدید ردعمل دینا، جس سے متاثر ہونے کا ماحول۔ تلخ رضاگھائی تعاون تنظیم امریکی مالیاتی بالادستی کے متبادل کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔
اس موقع پر پاکستانی وزارت خارجہ اور اسٹیبلشمنٹ نے مناسب طرز عمل اختیار کرتے ہوئے چینی وزیر خارجہ کو پاکستان مدعو کر کے بھارت کو مناسب پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ اور پاکستان کو ماضی سے نکل کر مستقبل کی طرف سفر کرنے کی کوشش کرنے کے لیے دونوں ممالک کے دانشوروں اور فیصلہ سازوں کی بامعنی صورت اختیار کرنے والے ممالک کو حقیقت کا ادراک کرنا ہے۔ جنگیں آپ کا حل اب معاشی اور سائنسی ترقی کا زمانہ۔ اس ترقی کے مثبت اثرات عام آدمی تک پہنچیں گے تو امن کا خواب پورا پاکستان اور بھارت کے عوام کو خطیر غربت سے ترقی کی دوڑ میں شامل کرنے کا تصور ممکن ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستانی قیادت پسندانہ رویہ ترک کرنے پر۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کیرتی پالیسی کی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔